نارووال کا ڈان احسن اقبال: پاکستان ٹو ڈے کی رپورٹ

Published on 03. Oct, 2011
(پاکستان مسلم لیگ کے لیڈر احسن اقبال کی ذاتی کرپشن اوراپنے بھائیوں کو غیرقانونی فائدے پنجاب حکومت سے لے کر پہنچانے پر مبنی یہ رپورٹ لاہور سے عارف نظامی کی زیرادارت چھپنے والے انگریزی روزنامے پاکستان ٹوڈے نے چھاپی تھی۔ ا س سٹوری کی سرخی یہ تھیThe Don of Narowal ۔ جب معروف کالم نگار ہارون الرشید نے اس سننسی خیز سٹوری کا حوالہ اپنے ’جنگ‘ کے ایک کالم میں دیا تو حیرانی کی بات ہے یہ کہ فوری طور پر یہ سٹوری پاکستان ٹوڈے کی ویب سائٹ سے ہٹا لی گئی تاکہ دینا بھر کے قارئین اس نیٹ پر نہ پڑھ سکیں۔ اپنے اردو کے قارئین کے لیے اس سٹوری کا ترجمہ شائع کیا جارہا ہے)
________________________________________________
تحریر یاسر حبیب (پاکستان ٹوڈے)مترجم: مریم حسین
لاہور: پاکستان مسلم لیگ کے سینئر راہنماء جو ناروال کے حلقہ این اے 117 سے تعلق رکھتے ہیں، اپنے علاقے میں ایک ” ڈان”کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ان کے اس غیرشریفانہ کردار نے ان کی اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو پریشان کر دیا ہے جو ان کی ’غنڈہ گردی‘ اور بھائیوں کے لیے اقربا پروری سے بہت تنگ ہیں۔ احسن اقبال اور ان کے رشتہ داروں کے خلاف لاہور پریس کلب میں ہونے والے ایک مظاہرے میں ساٹھ سالہ عبدالغنی کی موت جس کا تعلق ڈھوک چک بس اڈا ناروال سے تھا، کی وجہ سے پہلے ہی عوام میں بہت غصہ پایا جاتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود مسلم لیگ نواز پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ احسن اقبال کو ان کی پنجاب میں حکومت کرنے والی پارٹی نے یہ لائسنس دیا ہوا ہے کہ وہ ان کی حمایت سے جو چاہیں کرتے رہیں۔
پارٹی کے مرکزی سیکریٹریٹ میں ذرائع نے یہ انکشاف کیا ہے کہ احسن اقبال نے ناروال میں اپنی حکومت قائم کرلی ہے جہاں سے وہ تین دفعہ الیکشن جیت کر رکن پارلیمنٹ بن چکے ہیں اور انہیں جتانے میں ان کی والدہ آپا نثار فاطمہ کے رشتہ داروں رانا رمضان اور رانا افضل نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کو احسن اقبال اور ان کے رشتہ داروں کے بارے میں بہت ساری شکایتں موصول ہوئیں جن میں کہا گیا تھا وہ سب ڈرگز اور انسانی سمگلنگ میں ملوث ہیں اور اس کے علاوہ لوگوں سے بھتہ بھی وصول کرتے ہیں۔ ان کے بیشتر رشتہ دار اپنے آپ کو ایم این اے یا ایم پی اے سے کم نہیں سمجھتے اور جو ان کی بات نہیں مانتے، انہیں ہراساں کرنے کے علاوہ اغواء یا قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔
ایڈوکیٹ احسن اختر، جو کہ احسن اقبال کے رشتہ داروں کے خلاف عدالت میں ایک کیس لڑ رہے ہیں نے ’پاکستان ٹوڈے‘ کو بتایا کہ احسن اقبال حکومت میں اپنا اثر و رسوخ استمعال کر کے کڑروں روپے کے کنٹریکٹ لے کر اپنے کزنز کو دیتے رہتے ہیں۔ ان کے رشتہ دار بہت مال بنا رہے ہیں اور اس کے علاوہ اپنی مرضی کے ٹرانسفر اور پوسٹنگ بھی کراتے ہیں۔
احسن اقبال اس کے علاوہ اپنی دور طالبعلمی سے ایک بدنام زمانہ مائیگریشن کیس کے حوالے سے بھی خبروں میں رہے ہیں۔ احسن اقبال نے ٹیکسلا انجیرنگ یونیورسٹی سے لاہور کی انجیرنگ یونیورسٹی میں تبدیلی کے لیے سیاسی اثرو رسوخ استمعال کیا تھا۔ گیارہ مئی 1978( جنرل ضیاء کا دور جس میں احسن اقبال کی والدہ آپا نثار فاطمہ فوجی آمر کے بہت قریب سمجھی جاتی تھیں) کے سینڈیکٹ اجلاس کے منٹس سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ان دو یونیورسٹیوں کے درمیان اس طرح کے کسی طالب علم کو تبادلہ کرانے کی کوئی گنجائش نہیں تھی کیونکہ طالب علم ان دو اداروں میں میرٹ پر داخل ہوتے تھے۔ تاہم سینڈیکٹ نے احسن اقبال رجسٹریشن نمبر 76-UCET-18 کو ٹیکسلا سے لاہور یونیورسٹی تبادلے کی اجازت دے تھی۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کے ایک سینئر لیڈر کے مطابق احسن اقبال اپنی سازشوں کی وجہ سے بھی بہت مشہور تھے۔ جب نواز شریف جلاوطنی کاٹ رہے تھے تو وہ سازش کرکے پارٹی کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری بن گئے۔ صدیق الفاروق کو پارٹی کا انفارمیشن سیکرٹری بنانے تک کا نوٹیفیکشن بھی جاری کر دیا گیا تھا ۔ تاہم احسن اقبال نے سابق ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی جعفر اقبال گجر کے ساتھ مل کر یہ سازش تیار کی اور نواز شریف کو ذہن بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ۔
اپنے بدتمیزانہ اندار گفتگو کی وجہ سے ان کا اپنی پارٹی کی سینئر قیادت کے ساتھ تعلق کوئی اچھا نہیں ہے۔ وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو ذہانت، پروفیشنل ازم اور تعلیم میں بہت بہتر سمجھتے ہیں، لہذا وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور سولو فلائٹ پر یقین رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے ایک لیڈر نے بتایا کہ احسن اقبال نے اپنے چھوٹے بھائی مجتبی جمال کو پنجاب حکومت کے لیگل پینل پر ایڈجسٹ کرایا۔ مجتبی احسن جیل کمیٹی کے رکن ہیں۔ جیل سے متلعقہ تمام تر قانونی کارروائیاں، کیسز جو ہوتے ہیں، وہ ان کے ہاتھوں سے ہو کر عدالتوں میں جاتے ہیں اور موصوف دونوں ہاتھوں سے مال کما رہے ہیں۔
احسن اقبال نے اپنے ایک اور بھائی مصطفی کمال کو وزیراعلی کی ٹاسک فورس برائے پارکس اور ہارٹیکلچرل کا چیئرمین بنوا رکھا ہے۔ مصطفے کے خلاف اس وقت ایک انکوائری بھی ہو چکی ہے کہ وہ اپنے اس عہدے کو اپنے کاروبار کے لیے استمعال کر رہے ہیں۔ (موصوف کسی دور میں اس ادارے کو پھول فراہم کرتے تھے اور اب اس کے باس بن بییٹھے تھے)۔ پتہ یہ چلا کہ مصطفے کو ہرگز ہارٹی کلچر کا کوئی علم نہیں کہ اسے اس عہدے پر فائز کیا جاتا جو ویسے ایک ٹیکنوکریٹ کے لیے مختص ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ مصطفے پچھلے دور حکومت میں پنجاب ہارٹی کلچرل اتھارٹی کے ساتھ بہت ساری بزنس ٹرانزنکشن میں ملوث پائے گئے تھے۔ وہ ہارٹری گروپ، پلانٹ سپیس اور پلانٹ کیئر جیسی فرمز بھی چلاتے رہے جو پی ایچ اے کو پھول پودے فراہم کیا کرتی تھیں۔ ذرائع کے مطابق احسن اقبال کو خوش کرنے کے لیے پنجاب ہارٹی کلچر اتھارٹی نے یہ لازمی قرار دے دیا تھا کہ ان کی فرم سے پھول پودے ضرور حاصل کیے جائیں۔